سوال : محترم مفتی صاحب میں شیعه لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں اور چند مشکل مسائل کا شکار ہوں مجھے سےشیعه لوگ طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں اور ثبوت مانگتے ہیں جن میں سے چند ایک آپ کی خدمت میں پیش کر رہا
ہوں، آپ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرماکرممنون ومشکور فرمائیں ۔
(1) شیعه کا کہنا ہے که ہر وه کام جو رسولﷺ کے دور میں نه ہوا ہو وه بدعت ہے ، ان کا کہنا ہے که خلفائے راشدین کا رسول ﷺکی زبان مبارک سے مقرر کیا جانا ثابت کیا جائے؟
(2) ہمارے عقیدے کی مطابق رسول ﷺکی چار بیٹیاں ہیں وه کہتے ہیں که اگر رسول ﷺکی چار بیٹیاں ہیں تو رسول ﷺ نے (نعوذ بااللہ) پھر اپنی اولاد کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا، اگر ایک کو اتنی فضیلت دی که ہر جگه ہر مقام پر اس کی فضیلت میں مختلف ارشادات ہیں، کبھی رسول ﷺفرماتے ہیں:" فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے"، کبھی فرماتے ہیں:" فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہے"، باقی تینوں جگر کا ٹکڑا نه سہی، کہیں بازوکا حصه تو ہوتیں، جنت کی سردار نه سہی کنیزیں تو ہوتیں، کیا ہمارے رسول ﷺاپنی ہی بیٹیوں کے درمیان اتنا فرق پیدا کر سکتے تھے ؟
(3) تراویح کے بارے میں خود حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے که یه اچھی بدعت ہے جبکه بدعت کے بارے میں خود اللہ کا فرمان ہے"کل بدعة ضلالة" کہ تمام بدعتیں گمراہی ہیں، تراویح با جماعت کا مفصل ثبوت دیں ، کیا جب رسول ﷺنے فردا نماز نفل رمضان میں ادا کی تو اس وقت اس نماز کا نام تراویح تھا؟ مہربانی کرکے تفصیلاً آگاه فرمائیں ۔
(4) شیعه کا کہنا ہے که اذانِ رسول ﷺ میں یه الفاظ شامل نہیں تھے"الصلوۃ خیر من النوم" یه حضرت عمرؓ کے دور میں اضافه کیا گیا ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟
(5) یه ایک عام سی مثال ہے که جب دو گروہوں کے درمیان لڑائی ہوتی ہے تو ایک گروه حق پر ہوتا ہے اور ایک باطل پر یعنی ایک سچا ہوتا ہے اور ایک جھوٹا، تو مفتی صاحب آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، (اور تاریخ کا مطالعه بھی آپ کا مجھ سے زیاده ہی ہے اسی لئے تو میں آپ سے رہنمائی لے رہا ہوں) که حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جو لڑائی لڑی گئی تھی، ہم دونوں صحابہ رسول ﷺ کے بارے میں کیا رائے قائم کریں؟
(6) مفتی صاحب آپ بہتر جانتے ہیں که ہمارے پاک نبی ﷺ کا لباس کیا تھا، شیعه لوگ ہمارے بزرگ لوگوں پر تنقید کرتے ہیں که پائینچوں کو پینڈلیوں تک اٹھائے رکھنا کہاں لکھا ہے؟ جبکه رسول ﷺکا لباس عرب لباس تھا جس میں پائینچوں والی شلوار ہی نہیں تھی وه کہتے ہیں که اگر سنت پر چلناہی ہے تو پھر رسول ﷺوالا لباس پہنو(یه تو تم اپنے آپ کو منفرد کرنے کے لئے کرتے ہو)۔
(7) شیعه کہتے ہیں که دن میں پانچ نمازیں واجب ہیں مگر آپ فجر ، ظہر، عصر ، مغرب اور عشاء کے الگ الگ اوقات قرآن سے ثابت کرکے دیکھا دیں۔
(8) محتر مفتی صاحب آپ کا ایک سوال نامه جو که شیعه حضرات کے نام تھا میری نظر سے گزرا جس میں لکھا تھا که شیعه حضرات کے گیاره امام ہیں جبکه میرے معلومات کے مطابق شیعوں کے تو باره امام ہیں اس حوالے سے میری رہنمائی کریں که گیاره امام ہیں یا بارہ؟)
(9) شیعه خلفاء راشدین کو نہیں مانتے اس حوالے سے ہم ان کو کافر قرار دے رہے ہیں، آپ میری رہنمائی کریں که کیا خلفائے راشدین پر ایمان لانا ضروری ہے؟ جبکه ایمان مفصل اور ایمان مجمل میں میں نے خلفاء پر ایمان لانا تو نہیں پڑھا ؟
(10) ہمارے ہاں صحابه کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے ایک حدیث دلیل دی جاتی ہے که صحابه ستاروں کی مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے فلاح پاؤ گے عرض یه ہے که صحابه میں یزید بھی شامل ہے؟ اس حوالے سے میری رہنمائی فرمائیں ۔ محترم فی الحال ان چند سوالوں کے جواب مفصل لکھ کر بھیج دیں تاکه میری رہنمائی ہو سکے
المستفتی : محمد اجمل
الجواب وبالله التوفيق: آپ کے تحریرکردہ سوالات کا بترتیب ذیل میں جوابات دیئےجاتے ہیں:
(1)وہ شیعہ حضرات پہلے بدعت کی تعریف کریں که بدعت کس کو کہتے ہیں کوئی ایسی تعریف جو ہمارے اور آپ کے درمیان متفق علیه ہو، اگر ایسی متفق علیہ کوئی تعریف نہ ہو تو پھر ہماری وہ تعریف سامنے لائی جائے جس کے رو سے آپ خلفائےراشدین کےانعقاد کو بدعت کہہ رہے ہیں، اس کے بعد بات واضح ہوجائی گی کہ خلفائے راشدین کاانعقاد کیسے بدعت ہے ؟ (بدعت کی تعریف کا انتظار ہے گا)
(2) اس سوال کا جواب دینے سے پہلے آپ حضرات سےسوال ہے کہ کیا آپ حضرت فاطمه رضی الله عنہا کے علاوه بیٹیوں کو حضور صلی الله علیه وسلم سے مانتے بھی ہو یا نہیں؟ آپ کے سوال کا جواب سوال کے تنقیح کے بعد ہوگا ۔
(3)آپ تراویح کو کیا نام دیتے ہیں اور اس کی کتنی رکعت ہیں اور آپ بدعت حسنه اور بدعت سیئه کو مانتے ہو یا نہیں؟ جب آپ کی طرف سے بدعت کی تعریف آجائے گی تو اس کا جواب بھی مل جائے گا "کل بدعة ضلالة " یه تو الله تعالیٰ کا ارشاد نہیں ہے قرآن میں یہ کہاں ہے اس کی وضاحت کریں ۔
(4) نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان کا طریقہ جو بذات خود تعلیم فرمایا اس میں صبح کی اذان کے لیے"حی علی الفلاح" کےبعد دو مرتبہ"الصلاة خير من النوم" کہنا صحیح ثابت ہے۔ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
"میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر کے اگلے حصے کو چھوا اور فرمایا تو کہہ اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔۔اگرصبح کی نماز(کے لیے اذان) ہوتو تُو کہہ "الصلاة خير من النوم"، "الصلاة خير من النوم"
"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:سنت میں سے یہ ہے کہ جب موذن فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کہہ لے تو دو مرتبہ "الصلاة خير من النوم" کہے۔"
اور یہ بات اصول حدیث میں واضح ہے کہ جب صحابی کسی امر کے بارے میں کہے کہ یہ سنت ہے تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہوتی ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنهم اجمعین لفظ"سنت" صرف سُنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی بولتے تھے۔"
پس ثابت ہوا کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا "الصلاة خير من النوم" کو فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد دوبار سنت کہنے کا مطلب یہی ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔
"حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فجر کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے تشریف لائے تو بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سور ہے ہیں تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبار کہا "الصلاة خير من النوم" نماز نیند سے بہتر ہے تو اسے فجر کی اذان میں مقرر کردیاگیا تو پھر معاملہ اس پر پختہ ہوگیا"
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ فجر کی اذان میں "حی علی الفلاح"کے بعد دو مرتبہ"الصلاة خير من النوم" کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنهم اجمعین کو تعلیم فرمائی، یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایجاد نہیں ہے جیسا کہ شيعه حضرات کا کہنا ہے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ بات غلط منسوب ہے اور جس روایت کاحوالہ دے کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے وہ ایک ضعيف روایت ہے ۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ شیعہ حضرات نے جو اپنی اذان میں: "اشهد ان امير المومنين وامام المتقين علي حجة الله علي الخلق"وغیرہ کا اضافہ کیا ہے یہ کسی صحیح تو کجا ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو محذورہ یا بلال رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی کو تعلیم دیا ہو بلکہ فقہ جعفریہ کی کتب میں ایسا کلمہ کہنے والے پر لعنت وارد ہوئی ہو۔
(5) کیایہ کوئی قطعی اصول ہے کہ دنیا میں دوستوں، بھائیوں اور خاندانوں وغیره میں جتنی لڑائیاں ہوتی ہیں اس میں ایک گروه واقعی کافر ہو تی ہے ؟ یا منافق اور فاسق ہو تی ہے؟ باقی جواب یه ہے که الله تعالیٰ نے"سوره حجرات"میں آپ کی پیش کرده آیت میں لڑنے والی دونوں گروہوں کو مسلمان کہا ہے، لہذا مسلمانیت سے دونوں جماعتیں نہیں نکلیں ہیں۔ باقی ان حضرات رضی الله تعالیٰ عنہم کا اختلاف اجتہادی تھا، حضرت علی رضی الله عنه مجتہد مصیب تھے اور حضرت معاویه رضی الله عنه مجتہد مخطی ، صحابه رضی الله عنہم اجمعین اور اہل بیت رضی الله عنہم اجمعین ، حضرت معاویه رضی الله عنه سے محبت کرتے تھے، چنانچه حضرت حسین رضی الله عنه کی چوتھی بیوی حضرت معاویه رضی الله عنه کی بھانجی ہے۔
(6) حضور صلی الله علیه وسلم نے لنگی پوری زندگی استعمال فرمائی ہے اور شلوار کو خریدا ہے اور ابن قیم رحمه الله فرماتے ہیں که شلوار حضور صلی الله علیه وسلم نے پہنا بھی ہے اور یه بات یقین سے ثابت ہے که آپ علیه الصلوۃ والسلام نے شلوار کے بارے میں فرمایا :"ھذا استر"که اس میں زیاده ستر ہے۔
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ ایک دن بازار گیا۔ آپﷺ ایک کپڑافروش کے پاس گئے، اس سے آپﷺ نے چار درہم میں ایک شلوار (پاجامہ) خریدی۔ بازار والوں کے پاس ایک ترازو تھا جس سے وہ سامان وغیرہ وزن کیا کرتے تھے تو نبیﷺ نے ان لوگوں کو کہا کہ دیکھو! ذرا جھکتا تولا کرو۔ تو لنے والے نے کہا کہ یہ ایسا کلام ہے کہ میں نے کسی سے نہیں سنا۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ موجود تھے، انہوں نے کہا کہ تو کیا کہہ رہا ہے، تیرا دین اور دنیا سب برباد ہوجائے گا! کیا تم نہیں جانتے کہ یہ تیرے پیغمبر ہیں، رسول اللہﷺ ہیں۔ اس نے ترازوکو چھوڑ دیا اور فوراً رسول اکرمﷺ کے دستِ مبارک کی طرف بوسہ دینے کے لیے جھپٹا اور آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ کو کھینچ لیا اور فرمایا کہ یہ عجمی بادشاہوں کا طریقہ ہے۔ ارے! میں تو تمہاری ہی طرح کا آدمی ہوں، ہاں! تم جھکا کر تولا کرو۔ اور آپﷺ نے پاجامہ لے لیا۔ حضرت ابوہریرہرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آگے بڑھا کہ میں اُٹھالوں تو نبیﷺ نے فرمایا کہ صاحبِ سامان اس کے اُٹھانے کا زیادہ حق دار ہے ہاں! اگر کمزور ہو، ضعیف ہو تو مسلمان کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا (چوں کہ اللہ کے نبیﷺ تو لنگی باندھتے تھے) کیا آپﷺ پاجامہ پہنتے ہیں؟ جو آپﷺ نے پاجامہ خریدا۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ رات میں بھی، دن میں بھی، سفر میں بھی، حضر میں بھی مجھے ستر پوشی کا حکم دیا گیا ہے"
آقا ﷺ نے کیا فرمایا کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں دن میں بھی، رات میں بھی، سفر میں بھی، حضر میں بھی ہر حال میں ستر کو چھپاؤں اور شلوار سے زیادہ میں کسی چیز کو بہتر نہیں سمجھتا کہ ستر کو چھپانے والی ہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضورِ اقدس ﷺکے پاس بارش کے دنوں میں بقیعِ غرقد کے مقام پر بیٹھا تھا ، گدھے پر سوار ایک عورت گزری ،جس پر بوجھ تھا ، ایک نشیبی زمین پر پہنچی ،جہاں گڑھا تھا ،تو گر پڑی آپ ﷺنے دیکھ کر چہرہ عورت کی طرف سے پھیر لیا ،لوگوں نے عرض کی !کہ اے اللہ کے رسول!یہ شلوار پہنے ہوئے ہے آپ ﷺنے فرمایا:اے اللہ !میری اُمّت کی ان عورتوں کی جو شلوار پہنتی ہیں مغفرت فرما۔
اورجہاں تک پائینچے اٹھانے کی بات ہے تو یہ بات ان حضرات کی درست نہیں کہ ٹخنوں کا ظاہر کرنا عرب لباس کےساتھ خاص تھا اور یہ حکم شلوار کےلئےنہیں، ٹخنوں کاظاہر کرنا بہت سےاحادیث سےثابت ہےاور اس کی وجہ بھی ان احادیث میں واضح ہےکہ ٹخنوں کے ظاہر کرنے کاتعلق کسی لباس کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ تکبر ہے اور ٹخنوں کے ظاہر کرنے میں تکبر جس لباس میں بھی پایا جائے چاہےوہ عرب لباس ہو یاغیر عرب تو اس بچنالازم ہوگا اور ٹخنوں کاظاہر کرنا لازم ہوگا، ذیل میں چند احادیث ذکر کئےجاتے ہیں، (احادیث کے اصل عبارت بمع حوالہ حاشیہ میں مذکور ہے)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ " کہ ازار کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا تو وہ آگ میں ہوگا "
بخاری کی روایت ہے کہ " جو اپنے کپڑوں کو تکبر کےساتھ کھینچتا رہے تو اللہ تعالی ایسے شخص کو قیامت کے دن نظر رحمت سےنہیں دیکھے گا ۔
مسلم کی روایت ہےکہ " جو شخص اپنے ازار کو کھینچتا ہو تکبر کی غرض سے، تو یقینا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو رحمت کی نگاہ سےنہیں دیکھےگا ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا کبر وغرور اور فخر کے طورپر (زمین پر) گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظرِ کرم نہ فرمائے گا "۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے کہ مومن بندے کے لیے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ(یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے، (یعنی جائز ہے)اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے(یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)(راوی کہتے ہیں) کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی(اس کے بعد فرمایا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہِ فخروتکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔
خلاصہ کلام : ان احادیث اور اس طرح اور کئی احادیث سےپائینچوں کااٹھانا ثابت ہیں، باقی اس میں عرب لباس یا غیر عرب لباس کاقید لگانا درست نہیں ،اس لئے کہ ان احادیث میں پائینچے نیچے رکھنے پر جو وعیدیں بیان کی گئی ہے اس کی وجہ اورعلت "تکبر" ہےاور تکبر کی صورت شلوار میں بھی پائی جاتی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ ٹخنوں سے اونچا پائجامہ یا پینٹ پہننے میں عار محسوس ہوتی ہے ، یا ایسے پہننے والوں کو نظرِ حقارت سے کیوں دیکھتے ہیں؟ اس بابت ان سے مضحکہ بھی کرتے ہیں، یہ حکم صرف عرب لباس کےساتھ خاص نہیں بلکہ عجمی لباس چاہےوہ پینٹ شرٹ کی صورت میں ہو یا شلوار قیمیص کی صورت میں سب کو شامل ہوگا ۔
(7) دین اسلام میں کسی حکم کاماخذ صرف قرآن کریم نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے علاوہ سنت رسول، اجماع امت اور قیاس صحیح سے احکام شرع کا ثبوت ہوتاہے، جہاں تک ان حضرات کے سوال کا تعلق ہے تو قرآن کریم میں نمازپڑھنے کا حکم ضرور ہے،اور اوقات نماز کا ذکر بھی مختلف مواقع پر قرآن کریم میں مختلف انداز سے کیا گیا ہے، جیسے کہ: فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کا حکم سورۃ ہود میں اس طرح ارشاد ہیں: وَأَقِمْ الصَّلاةَ طَرَفِي النَّهَارِ وَزُلَفاً مِنْ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ
ترجمہ "اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجیے، بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے"
اسی طرح سورة الاسراء میں پانچوں نمازوں کے بارےمیں ارشاد خداوندی ہیں: "أَقِمْ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً " (الاسراء: 78)
ترجمہ: " آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے ۔
ظہر اور عصر کی نماز کی تعلیم اور حکم کے بارےمیں سورۃ الروم ارشاد ہیں : " وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَعَشِيّاً وَحِينَ تُظْهِرُونَ" (الروم: 18)
ترجمہ : "اوراسی کی حمد ہوتی ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی،اور سورج ڈھلنےکے وقت بھی (اس کی تسبیح کرو ) اور اس وقت بھی جب تم پر ظہر کا وقت آتاہے "
ان تمام آیات میں پانچوں نمازوں کے اوقات کا ذکر ہے جو صبح و شام کے اوقات میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کو مختلف طرز اور اسلوب میں بیان فرمایا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب
(8) جی ہاں شیعه حضرات کے باره امام ہیں چونکه گیاره امام گزر چکے ہیں ، تو ہم آپ سے ان چیزوں کا ثبوت چاہتے ہیں کہ جو آپ حضرات کرتے ہیں وہ ان گیارہ اماموں میں سے کسی سے ثابت ہے ؟ کیا آپ کے گیاره اماموں نے وه کام کئے ہیں؟ بارھویں امام کا تذکره ہم نے اس لئے نہیں کیا که وه ابھی تک تشریف نہیں لائے ہیں۔
(9) جی ہاں ان پر ایمان لانا ضروری نہیں، ایمان تو الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیه وسلم پر لانا ہے، لہذا اگر کوئی شخص مثلاً حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ کے خلافت کا انکار کرے تو صرف اس وجه سے ہمارے نزدیک کافر نہیں ہو گا بلکہ کافر تو قرآن کی تخریف، حضرت عائشه صدیقہ رضی الله عنہا پر تہمت اور تمام صحابه رضی الله عنہم اجمعین کو (نعوذ با الله) کافر اور مرتد ماننے پر ہوگا ۔
(10) جی ہاں صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی اتباع ہی میں ہدایت ہے ،باقی یزید صحابی نہیں تھے ۔
"قلت يا رسول الله علِّمني سنة الأذان ، قال : فمسح مقدم رأسي وقال : تقول : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر ... فإن كان صلاة الصبح قلت : الصلاة خير من النوم , الصلاة خير من النوم"
(ابوداود کتاب الصلاۃ باب کیف الاذان(500،501) مودار الظمان (289) طبرانی کبیر 7/174 حلیۃ الاولیاء 8/310 عبدالرزاق 1/458(1779) شرح السنۃ باب التثویب 2/263،264(408) بیہقی 1/394 ابن خذیمہ 1/201(385) دارقطنی 1/233)
"عن أنس رضي الله عنه قال : من السنة إذا قال المؤذن في أذان الفجر : حي على الفلاح قال : الصلاة خير من النوم ، الصلاة خير من النوم"
(صحیح ابن خذیمہ 1/202 (386) دارقطنی 1/242 التحقیق لابن جوزی 1/311 بیہقی 1/423 امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اس کی سند صحیح ہے نیز دار قطنی میں "الصلاة خير من النوم"، "الصلاة خير من النوم مرتین "کے الفاظ ہیں)
"واصحاب النبي صلي الله عليه وسلم لا يقولون السنة الا لسنة رسول الله صلي الله عليه وسلم "(کتاب الأم 1/240)
"عن بلال أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم يؤذنه لصلاة الفجر، فقيل : هو نائم ، فقال الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم فاقرت في تاذين الفجر فثبت الامر علي ذلك" (ابن ماجہ کتاب الاذان(716) اس کی سند میں انقطاع ہے لیکن چونکہ اوپر صحیح سند سے ثابت ہے اس لیے اسے بطور تائید اور شاہد کے ذکر کردیا ہے)
"عن أبي هريرة قال: «دخلت يوما السوق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس إلى البزازين، فاشترى سراويل بأربعة دراهم، وكان لأهل السوق وزان يزن، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : " اتزن وأرجح "، فقال الوزان: إن هذه لكلمة ما سمعتها من أحد، فقال أبو هريرة: فقلت له: كفى بك من الرهق والجفاء في دينك ألا تعرف نبيك؟ فطرح الميزان ووثب إلى يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد أن يقبلها، فحذف رسول الله صلى الله عليه وسلم يده منه فقال: " ما هذا؟ إنما يفعل هذا الأعاجم بملوكها ولست بملك إنما أنا رجل منكم ". فوزن وأرجح وأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم السراويل، قال أبو هريرة: فذهبت لأحمله عنه فقال: " صاحب الشيء أحق بشيئه أن يحمله إلا أن يكون ضعيفاً فيعجز عنه فيعينه أخوه المسلم ". قال: قلت: يا رسول الله وإنك لتلبس السراويل؟ قال: " أجل في السفر والحضر، وفي الليل والنهار، فإني أمرت بالستر فلم أجد شيئا أستر منه". مجمع الزوائد ومنبع الفوائد باب في السراويل(رقم الحدیث: 8510، 5/ 121)
"وعن علي قال: «كنت قاعدا عند النبي صلى الله عليه وسلم عند البقيع - يعني بقيع الغرقد - في يوم مطير، فمرت امرأة على حمار ومعها مكار، فمرت في وهدة من الأرض فسقطت، فأعرض عنها بوجهه، فقالوا: يا رسول الله إنها متسرولة؟ فقال: " اللهم اغفر للمتسرولات من أمتي" (ايضا، 5/ 122)
عن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ أن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ مِنْ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ " رواه البخاري (رقم الحديث : 5787)
"مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ لَا يُرِيدُ بِذَلِكَ إِلَّا الْمَخِيلَةَ : فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".مسلم (رقم الحدیث 2085)
عن ابن عمرَ أن النبي صلی الله علیه وسلم قال: مَنْ جرَّ ثوبَه خُیَلَاءَ لَمْ ینظُرِ اللّٰه إلیه یومَ القیامةِ․(بخاری، کتاب المناقب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:لوکنت متخذا خلیلا․․․(حدیث نمبر: ۳۶۶۵)
عن أبي سَعِیْدِن الْخُدْرِيِّ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللّٰه صلی اللہ عليه وسلم یقولُ: ازارةُ المُوٴْمِنِ الٰی أنْصَافِ سَاقَیْه، لاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ فِیْمَا بَیْنَه وَبَیْنَ الْکَعْبَیْنِ، وَمَا أسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ فَفِي النَّارِ، قَالَ ذٰلِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ وَلاَ یَنْظُرُ اللّٰه یومَ القیامةِ الیٰ مَنْ جَرِّ ازارَہ بَطَرًا (ابوداوٴد، اللباس، باب فی قدر الموضع من الازار، حدیث نمبر: ۴۰۹۵)