سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلمائے عظام اس فرقہ کے بارے میں  جو که اس وقت "بوہری "نام سے متعارف ہے، ان کے عقائد اور نظریہ کے بارےمیں رہنمائی فرمائے ،اور اگر اس فرقہ کے متعلق کچھ تحریر مواد آپ کے

پاس موجود ہو تو برائے کرم ارسال فرمادے ، مشکور وممنون ہوں گے ۔ 

الجواب وبالله التوفيق: واضح رہے که فاطمیوں کے وه افراد جو ۴۸۷ ھ ۱۰۹۵ ء میں نزار کی بجائے المستنصر بالله کے دوسرے بیٹے احمد المستعلی با لله کو امام وخلیفه تسلیم کیا وه نزار کے مقابل مستعلویه کہلائے۔ پھر ۹۹۹ھ ۱۵۹۱ء میں مستعلویه دو حصوں میں بٹ گئے۔ان کی اکثریت نے داود بن قطب شاه کو ۲۷ واں داعی مانا۔ داود بن قطب شاه کو داعی تسلیم کرنے والے داودی کہلائے جبکه سلیمان ابن حسن کو داعی تسلیم کرنے والے سلیمانی کہلائے یه لوگ اکثر تجارت سے متعلق ہیں اس لئے بوہری کہلائے بوہره کا معنی تاجر کے ہیں۔ یعنی شیعه مذہب میں حضرت جعفر صادقؒ کی وفات کے بعد ایک بڑا انقلاب آیا اور لوگ دو فرقوں میں بٹ گئے ایک فرقے نے کاظم موسیٰ بن جعفر کو امام مانا اور موسوی کہلائے اور دوسرے فرقے نے اسماعیل بن جعفر کو امام مانا اور اسماعیلی کہلائے انہی اسماعیلیوں میں بعد میں اختلاف سے ایک فرقه مستعلویه نے جنم لیا جسے لوگ آج بوہریوں کے نام سے جانتے ہیں موجوده تمام اسماعیلی فرقوں کے مجموعی عقائد فاسد ه وکاسده درجه ذیل ہیں۔

(1)توحید: الله تعالیٰ ایک ہے مگر کسی صفت سے موصوف نہیں یا کسی نعت سے منصوت نہیں الله تعالیٰ کی ذات پر لفظ واحد کا اطلاق کرنا درست نہیں تمام صفات حقیقت میں اس مبدع اول پر واقع ہیں جس سے الله نے سب سے پہلے پیدا کیا،  جس کا دوسرا نام "عقل اول "یا "امر"یا "کلمه "ہے عالم جسمانی میں یه صفات امام پر صادق آتی ہیں کیونکه وه عقل کے مقابل قائم ہے الله تعالیٰ کو ہست بھی نہیں کہا جا سکتا ہے ۔

(2)رسالت: انبیاء ومرسلین کو اولاً مستقر امام کا نائب یا مستورع کہا گیا ہے اس کے بعد اس نبی کو ناطق بتلایا ہے جو خدا کی طرف سے شریعت لاتا ہے اس حیثیت سے اس کا فرض صرف شریعت کا اظہار ہے جبکه باطن کی ذمه داری "صامت"کی ہے اور باطن ہی مقصود اصلی ہے اور آگے چل کر کہا گیا ہے که ایک ناطق اپنے سابق کی شریعت کو منسوخ کرتا چلا آیا ہے اور یه سلسله امام محمد بن اسماعیل ابن جعفر صادق تک پہنچا جو ساتویں ناطق اور ساتویں رسول ہیں، جنہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شریعت ظاہر کو معطل کیا اور باطن کو کشف کیا عالم طبائع کو ختم کیا یہی یوم آخرمیں قائم القیامه ہیں۔ 

(3)قرآن کریم: نبی یا رسول کا کام یه ہے که وه جو بات اس کے دل میں آتی ہے اور بہتر معلوم ہوتی ہے وه لوگوں کو بتا دیتا ہے اور اس کا نام کلام الٰہی رکھتا ہے تاکه لوگوں میں یه قول اثر کر جائے  اور وه اس سے مان لیں۔ نبی کریم صلی الله علیه وسلم نے اس کا ظاہر بیان کیا جبکه حضرت علیؓ نے بحیثیت "صامت "کے اس کا باطن بیان کیا جو مقصود اصلی ہے۔

(4) نبی اور امام: نبی کے مقابلے میں امام کے اوصاف بھی دلنشین کئے جاتے ہیں(1)امام علم خدا کا خازن اور علم نبوت کا وارث ہے ۔(2)اس کا جوہر سماوی اور اس کا علم علوی ہوتا ہے(3)اس کے نفس پر افلاک کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکه اس کا تعلق اس عالم سے ہے جو خارج ازافلاک ہے۔(4)اس میں اور بندگان خدا میں وہی فرق ہے جو حیوان ناطق اور غیر ناطق میں ہے ۔(5) ہر زمانہ میں ایک امام کا وجود ضروری ہے۔ (6)امام ہی کو دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ (7)ہر مومن پر ایمان کی معرفت واجب ہے ۔(8)امام معصوم ہوتا ہے اس سے خطاء نہیں ہو سکتی ۔(9)امام کی معرفت کے بغیر نجات ممکن نہیں ۔(10)باری تعالیٰ کے جو اوصاف قرآن مجید میں وارد ہیں ان سے حقیقت میں ائمه موصوف ہیں ۔(11)ائمه کو شریعت میں ترمیم وتنسیخ کا اختیار ہے۔ 

بنیادی عقائد کے بعد اسماعلیه فاطمی مستعلویه (بوہر یوں ) کے دیگر امور کے متعلق عقائد : 

(1) ان کا ایمان ہے که امام طیب کی نسل سے برابر امام ہو تے آرہے ہیں  اگرچه پوشیده ہیں،  لیکن داعیوں کو ان سے برابر ہدایات ملتی رہتی ہیں،  مہدی آخرالزمان جو قیامت کے قریب میں ظاہر ہونگے وه امام طیب کی نسل سے ہونگے۔

(2) اعمال شریعت کے پابند ہیں مگر جمعه کی نماز با جماعت نہیں پڑھتے (ا) اعلانیه سود لیتے ہیں (ب) دیوالی کے موقع پر روشنی کرتے ہیں، اور حساب کتاب کی نئی کتابیں تبدیل کرتے ہیں، ہندی بنیوں کے اعتبار سے حساب رکھتے ہیں، عیدین اور دیگر ایام مبارک کیلئے ان کا کیلنڈر اپنا ہے (د) ان کی مساجد، جماعت خانه اور قبرستان سب علیحده ہیں (ذ) کچھ عرصه سے ان کی خواتین نے پرده شروع کرلیا ہے ۔

(3) وضع قطع اور لباس میں اگرچه مسلمانوں سے قریب تر ہیں،  مگر ان سب کا اندازه امتیازی ہے جس سے وه آسانی سے پہچانے جاتے ہیں ۔

(4) ان کا کلمه یه ہے "لا اله الا الله محمد رسول الله مولانا علی ولی اللہ وصی رسول اللہ"۔

(5) اذان میں "اشهدان محمداً رسول الله" کے بعد "اشهدان مولانا علی ولی الله" اور "حیّ علی الفلاح" کے بعد "حی علی خیر العمل محمد وعلی خیر البشرو عترتها ما خیر العتر" کا اضافه کرتے ہیں۔ 

اسماعلیه دائره اسلام سے خارج :

اسماعیلی فاطمی "بوہری" فرقه اپنے ان عقائد فاسده کی بناء پر دائره اسلام سے خارج هے ۔

 بوہریوں کے ساتھ دوستی وتعلقات: 

ان کے ساتھ دلی محبت ودوستی کا رسم رکھنا بھی حرام وناجائز ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنْ الْحَقِّ " (الممتحنة: 1)

 ترجمہ:" اے ایمان والوں نه بناؤ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست تم ان کو پیغام بھیجتے ہو دوستی سے اور وه منکر ہوئے ہیں اس سے جو تمہارے پاس آیا سچا دین"

اس آیت میں " عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ "کے مضمون سے صراحتاو اضح ہے که خدا کے دشمنوں سے دوستی رکھنا یا دوستی کی توقع رکھنا سخت دھوکه ہے اس سے بچو،  دوسرا اس طرف بھی اشاره ہو گیا که کافر جب تک کافر ہے وه کسی مسلمان کا جب تک وه مسلمان ہے دوست نہیں ہو سکتا،  

 

مناکحت:

 ان بوہریوں کے ساتھ رشته مناکحت بھی جائز نہیں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وَلا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُوْلَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ " (بقره :221)

ترجمہ : "اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ،یقنا ایک مؤمن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو، اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤجب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں " 

 اسی طرح جو مرد ظاہری حالت سے مسلمان سمجھا جائے لیکن عقائد اس کے کفر تک پہنچتے ہو اس سے مسلمان عورت کا نکاح درست نہیں اور جو عورتیں ظاہری حالت سے مسلمان سمجھی جائیں لیکن عقائد ان کی کفر تک پہنچتے ہوں اس سے مسلمان مرد کانکاح درست نہیں ۔ لہذا لڑکی والوں پر واجب ہے که اول عقائد کی تحقیق کر لیا کریں پھر رشته طے کریں۔

اسی طرح آپ صلی الله علیه وسلم کا ارشاد ہے: " تفترق امتی علی ثلاث وسبعین ملة کلھم فی النار الا ملة واحدة قالوامن ھی یا رسول الله ؟ قال: ما انا علیه واصحابی" 

امام کبیر شرف الدین حسین بن لحدبن عبدالله الطیبی المتوفی( ۷۴۳ ھ )اس حدیث مذکوره کی شرح میں فرماتے ہیں که امتی میں امت سے مراد وه لوگ ہیں که اہل قبله میں سے جو  دعوت کے دائرے میں ہوں اور اس کے علاوه یه دوسرے جہنم میں اس لئے جائیں گے که یه ایسے افعال رویه کو اختیار کریں گے (جو ان کے کفر کا سبب ہونگے) اور ان کے جہنم میں دخول کا سبب ہونگے۔ 

بہرحال امت کے بہت فرقے جو اپنے عقائد فاسده اور افعال ردیه کی وجه سے جہنم میں جائیں گے تو ایسے لوگوں سے مناکحت کیسے جائز ہو سکتی ہے اور امت سے مراد امت دعوت بھی ہو سکتی ہے،  تو اس صورت میں تمام کفار بھی نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی امت میں داخل ہیں۔ اس حدیث میں کفار بھی نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی امت کا ایک حصه ہیں اور امت کا ایک حصه ہونے سے ان سے نکاح جائز نہیں ہو جاتا،  لہذا افرقه بوہری کے عورتوں سے نکاح کرنا یا اپنے عورتوں کو ان کے عقد نکاح میں دینا نا جائز وحرام ہے فرقه بوہری کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے ذیل کے کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے :

(1)تاریخ فاطمین مصر مکمل (2)دائره المعارف پطرس عربی جلد رابع (3)دائره معارف (اردو) پنجاب یونیورسٹی جلد رابع (4)ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام (5)اسماعیله اردو مولف سید تنظیم حسین۔فقط والله تعالیٰ اعلم